کیاآپ اپنی تجارت کوبابرکت بنائیں گے؟
از: محمدحذیفہ
وستانوی
تجارت میں برکت کے نسخے:
الحمدللہ! اللہ کا احسان ہواکہ اس
نے ہمیں ایک ایسے دین سے وابستہ کیا جس نے اپنے ماننے
والے کو زندگی گزارنے کے لیے عمدہ اصول بنائے، جس کو مدِّنظر رکھ کر
ہر آ دمی اطمینا ن اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی کی
کشتی کو کنا رے لگا سکتا ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں ہو سکتا
ہے کہ اسلام نے ہمیں ایسے طریقے نہ بتا ئے ہوں جس سے ہماری
تجارت میں برکت ہو، تو آئیے ہم قرآن اور حدیث کی روشنی
میں اور صحا بہ و اسلا ف کے آثار میں اور بزرگوں کے تجربے میں
ان کو تلاش کریں قرآ ن کریم چو نکہ ہمارے لئے آسمانی گا ئڈس ہے
لہٰذا سب سے پہلے قر آ ن ہی میں اس کو تلاش کریں ۔
تقویٰ:
قرآ ن میں ارشادہے: ومن یتق
اللّٰہ یجعل لہ مخرجا۔ یعنی جو شخص تقو یٰ
اختیار کرے تو اللہ اس کے لئے ہر مصیبت اور پریشانی سے
نکلنے کی سبیل نکال دیتا ہے ۔
پتاچلا کہ اگرہم بھی اپنی
تجا رت میں ہونے والی پریشانی سے نکلناچا ھتے ہیں
تو سب سے پہلے متقی یعنی اللہ سے ہر حال میں ڈ رنے والے
بن جا ئیں، اب تقو یٰ کسے کہتے ہیں: اللہ کی چاہت
اور مر ضی پرچلنے کو، او رنا مرضیات سے بچنے کو؛ لہٰذااگر ہم
اپنی تجارت میں کذب بیانی دھوکا دہی، جھو ٹی
قسم، سودخوری رشوت خوری ،ظلم ،غضب، چوری ،خیانت ،حرام چیزوں
کی خرید و فروخت سے اجتناب کرتے ہیں، تو ہماری تجارت میں
خو د بخود برکتیں نازل ہونے لگیں گی ۔
شکر :
لان
شکرتم لازیدنکم اگر تم شکر گزاری کروگے تو میں
ضرور بالضرور نعمتوں میں اضافہ کردوگا ۔
اس آیت سے اللہ تعالیٰ
یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ انسان جب تجارت کرے اور تجارت کے بعد جو کچھ
بھی نفع مل جائے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے، تو اللہ تجارت میں
برکتوں کو نازل کرے گالہٰذا جوبھی تھوڑا بہت ہاتھ لگے اس پر اللہ کا
شکر بجا لائے آپ کی تجارت میں خود بخود نفع بڑھنے لگے گا۔
صدقہ اور خیرات:
یمحق
اللّٰہ الربوا ویربی الصدقات اللہ
رب العزت سود کو ملیا میٹ کر دیتا ہے اور صدقات میں
بڑھوتری کرتا ہے ۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ
سود کے ذر یعہ اگرچہ ظاہر ی نظر سے مال میں بڑھو تر ی نظر
آتی ہے، لیکن حقیقتاً وہ بڑ ھوتر ی اور اضافہ نہیں
ہوتا بلکہ کمی ہوتی ہے، کیونکہ سود کے سبب مال اور جان پر جو
کھم اور پر یشانیا ں پے در پے آتی رہتی ہیں اور وہ
حرام کے مال کے ساتھ دوسرا مال بھی اس کے پیچھے خرچ ہوتاہے۔
اللہ ہم سب کو سود جیسی تباہ کن بیماری سے حفاظت فرمائے۔آمین!
پھر قرآن آگے ارشاد فرمایا: ویربی
الصدقات یعنی صدقات کو بڑھو
تری دیتاہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صدقہ خیرات دینے
سے ظاہراً اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مال میں کمی ہوگئی،
لیکن حقیقت میں مال میں اضافہ ہوتاہے کیونکہ اللہ
رب العزت صدقہ کی برکت سے مال میں برکتوں کو ڈال دیتا ہے، اور
مالی پریشانی اور رزق میں تنگی کو دور کردیتا
ہے یہ تو دنیا کا معاملہ ہے اور آخرت میں صدقہ کی نیکیاں
پھر الگ ہوں گی اللہ رب العزت ہمیں اپنے راستہ میں زیادہ
سے زیادہ خرچ کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم
آمین ۔
اور قرآ ن کی اس آ یت
کو آ پ تاریخ کے آ ئینے پر پرکھ سکتے ہیں جیسا کہ ہم سب
جانتے ہیں کہ صحابہ میں حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے اللہ کے راستہ میں بے دریغ اور بے حساب مال خرچ کیا تو
ان کے مال میں اضافہ ہی ہو تا گیا اسی طرح عبدالر حمن بن
عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے راستہ میں بے تہاشا
مال خرچ کیا تو ان کے مال میں بھی کبھی ہم نے کمی
کے بارے میں نہیں پڑھابلکہ یہ لوگ ایسے تھے کہ ان کی
دنیا بھی سنور گئی اور آخر ت میں بھی اللہ کی
جانب سے خوشنودی کا سر ٹیفکیٹ مل گیا۔ان کے واقعات
کو آپ سیرت صحابہ اور سیرالصحابہ وغیرہ میں تفصیل
کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔
ایمان اور جہاد فی سبیل
اللہ:
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
: یا
ایھا الذین اٰمنوا ھل أدلکم علی تجارة تنجیکم من
عذاب ألیم. یوٴمنون با اللّٰہ و رسولہ وتجاہدون فی
سبیل اللّٰہ بأموالکم وأنفسکم ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ اے ایمان والو کیا میں
تمہاری ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کرو ں جوتم کو
دردناک عذاب سے بچالے وے۔ اللہ اوراس کے رسول پرایمان لے آوٴ
اورخداکی راہ میں اپنے مال و جان سے جہادکرو اگرتم یہ سمجھویہ
چیزتمارے حق میں بہترہے۔ اس آیت میں اللہ نے ارشاد
فرمایا کہ انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اللہ
اوراس کے رسول پرایمان لے آوے اورپھراپنی جان ومال کواس کے راستے میں
کھپا دیوے، پتا چلا کہ ایمان میں پختگی اور ثبات قدمی،
جہاد فی سبیل للہ سے بھی انسانی حا لات درست ہوجاتے ہیں
اور رزق میں برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
ذکراللہ، ادائے زکوةاور اہتمام
نماز اور خوف آخرت :
قرآن نے فرمایا: رجال
لا تلھیھم تجارة ولا بیع عن ذکر اللّٰہ و اقام الصلوة و ایتاء
الزکوة یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب و الأبصار لیجزیھم
اللّٰہ احسن ما عملوا ویزیدھم من فضلہ واللّٰہ یرزق
من یشاء بغیر حساب۔
یعنی صالحین تو وہ لوگ ہیں
جن کو خدا کے ذکر کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوة دینے سے نہ تو سوداگری
اورنہ ہی خرید و فروخت غافل کرتی ہے، وہ ڈرتے ہیں اس دن
سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ ) کے سبب الٹ جائیں گے، آنکھیں(اوپر چڑھ
جائیں گی )تاکہ اللہ رب العزت ان کو ان کے اعمال کا بہتر ین
بدلہ دیوے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی کر دیو ے، اور اللہ
رب العز ت جسے چاہتے ہیں بے حساب رزق عطا فر ماتے ہیں ۔
برادران اسلام ! ہماری زند گی
کا مقصد دین اور تقوی عبادت اور ذکراللہ نہ دنیا نہ مال نہ عیش
وعشر ت جیسا کہ قرآن کی یہ آیت بتارہی ہے یعنی
تجارت وخرید و فروخت ان کو اللہ کے ذکر سے (جو مقصود موٴمن ہے )غافل
نہیں کرتی ۔
افسوس !!!اکثر اس زمانہ میں
اکثر مسلمانوں نے تجارت کو مقصود اصلی بنا لیا جس کے نتیجے میں
محبت کے رشتے کمزور ہوگئے اور جھگڑوں اور فتنوں کا ایک عظیم طوفان
برپا ہوگیا ۔ایک شاعر کا کہنا ہے۔
کل تک محبتوں کے چمن تھے کھلے ہوئے
دو دل بھی آج مل نہیں
سکتے ملتے ہوئے
مگر آج کل اکثر مسلمانوں کی
خصو صا مغرب زدہ اور یورپ سے متأثر تعلیم یافتہ لوگوں کے شب
وروز حرکات وسکنات افعال وکردار اقوال واعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا ہی
انہیں محبوب ہے اور وہی ان کا مقصود ہے مذہب کو یہ لوگ محض اس
لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے مصالح دنیا
محفوظ رہیں باقی دین کو حیثیت سے اختیار نہیں
کرتے اگر ایسا ہوتا تو دینی امور کوازخود اختیار کرتے اور
انہی کو پسند کرتے دوسری قوموں یعنی یورپی
اقوام کی تقلید نہ کرتے اور ان کی طرف نہ دیکھتے،پس ان
لوگوں کی بڑی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کو
اصل مقصود اور دین کو تابع فرما دیتے ہیں حالانکہ اس آیت
میں تلہیھم
تجارة ولابیع عن ذکراللّٰہ کے اسلوب سے صاف معلوم ہوتا ہے دنیا مقصودنہیں بلکہ دین ہی
اصل مقصود ہے اگر دنیا مقصود ہوتی تواللہ تبارک وتعالیٰ یوں
فرماتے: لایلہیم
ذکراللّٰہ عن التجارة و البیع یعنی ذکراللہ کی مشغولیت ان کو تجارت سے غافل نہ کرتی
لیکن اللہ نے یوں نہیں فرمایا بلکہ یوں فرما یا
کہ تجارت ولابیع عن ذکر اللّٰہ کے ذکرسے غافل نہیں کرتے اس سے
صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصود اصلی دین ہے ۔
بات طول پکڑگئی تو کہنایہ
مقصود ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو دین کا پابند اور تابعدار بناتا ہے تو اس
پہ رزق کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جیساکہ اس آیت سے
معلوم ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے اس آیت میں ایک قانون بیان
کیا جوپابندی سے صوم و صلاةکرے، اور فریضہٴ زکوة ادا کرے،
اور اللہ سے ڈرتا رہے، تو اللہ ربّ العزت اس کو بہترین بدلہ دیتا ہے
اور پھر آگے فرمایا: ویزیدھم من فضلہ اور اپنے فضل سے اضافہ کرتا یعنی
حلال رزق کی طرف، سیجزیسے اشارہ کیا اورزیادتی
کی طرف ویزیدھم سے اشارہ کیا، کیوں کہ اس آیت
میں اگراس کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے توفضل سے مرادرزق
ہوناچاہیے کیونکہ پہلے تجارت کا تذکرہ اوربعد میں واللہ یرزق
من یشاء یعنی اللہ جس کو چاہے بے حساب رزق عطا کردیوے
کاتذکرہ بتا دیتا ہے کہ فضل سے مراد رزق ہوگا، اورآگے بڑھ کرمیں یوں
کہہ سکتا ہوں کہ
لاتلھیھم سے نماز اور زکاة میں اخلاص
کی طرف اشارہ ہو کیونکہ مخلص کے مد نظر ہمیشہ آخرت ہوتی
ہے اور قرآن کہتا: یخافون
یوما یعنی وہ آخرت سے ڈرتے
ہیں اور لیجزیھم پھر اس کے بعد ویزیدھم
اور پھر آگے ویرزق
من یشاء سے بے حساب برکت فی الرزق کی
طرف اشارہ ہے اوراس کے نمونہ تاریخ میں عثمان ابن عفان رضی اللہ
عنہ اور عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی صورت میں
موجود ہے ۔
استغفار :
سورہ نوح میں اللہ رب العزت
ایک اولوالعزم او رصاحب صبرجمیل پیغمبر حضرت نوح علیہ
السلام کاان کی قوم کو نصیحت وموعظت کاذکرکرتے ہوے فرماتے ہیں: وقلت
استغفر ربکم انہ کان غفارا یرسل السماء علیکم مدرارا و یمددکم
بأموال و بنین ویجعلکم جنات وجعلکم انھارا۔ یعنی نوح علیہ
السلام فرماتے ہیں: میں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اس پروردگار
سے استغفار کرو یعنی گناہوں کی بخشش طلب کرو بیشک وہ بہت
زیادہ بخشنے والا ہے،(استغفار کی برکت سے) تم پرمسلادھار بارش برسائے
گا۔ اور مال اور اولاد کے ذیعہ تمہاری امداد کرے گا اور تمہارے
لئے باغات کی ریل پیل کردیگا اور نہروں کوجاری کردیگا۔قرآن
کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار سے رزق میں
برکات اترتی ہیں اور اولاد کی بھی ولادتیں ہوتی
ہیں کیونکہ اک ایسا جلیل القدر نبی جس کی
دعوت ساڑے نو سو سال رہی وہ نبی اپنی قوم کو یہ بات کہہ
رہا ہے اور پھر قرآن جیسی عظیم کتاب اس کو نقل کررہی ہے،
پتہ چلا کہ یہ ایک لازمی امر ہے کہ استغفارسے رزق میں
برکات اور انوار کا ورود ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس کو دوسری جگہ
اس طرح فرمایا کہ: ما کان اللّٰہ لیعذبہم
وانت فیہم وماکان اللّٰہ معذبہم وہم یستغفرون۔یعنی اللہ رب العزت آپ
کے ان کے درمیان ہوتے ہوے انہیں عذاب نہ دے گا، اور وہ استغفار کر رہے
ہوں تب بھی اللہ ان کو عذاب دینے والا نہیں۔اس آیت
سے معلو م ہوا کہ اگر کسی قوم کے افراد برابر استغفار میں لگے رہے تو
اس پر قہر خدا وندی نہیں اتر تا چا ہے وہ قحط کی صورت میں
چاہے وہ تنگی رزق کی صورت میں ہو یا چاہے وہ طاعون، سارس
اور مہلک امراض کی صورت میں ہو۔ بہرحال استغفار کی برکت
سے آدمی اپنے رزق میں برکت نازل کرو ا سکتاہے اور ساتھ ہی ساتھ
اور بھی ان گنت فائدے اس کے ضمن میں پاسکتاہے ۔اب استغفار کا طریقہ
کیا ہو اور اس کے الفاظ کونسے افضل ہے تو ان شاء اللہ ”اوراد و ظائف“ کے تحت
ذکر کیا جائے گا ۔
صبح سویرے تجارت کا
آغازکرنا:
صبح کا وقت بڑا با برکت وقت ہے اس
میں بہت زیادہ برکتیں اور رحمتیں ہیں لہٰذا
تاجر کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد بستر کو چھوڑ دے اور ہو سکے تہجد پڑھے ورنہ فجر کی
نماز کا ضرور اہتمام کرے پھر کچھ دیر قرآن کی تلاوت میں صرف کرے
اور کچھ دیر ذکر خدا وند ی میں صرف کرے اور پھر بجائے دوبارہ
سونے کے اگر اشراق کا وقت ہوجائے تو اشراق کی کم سے کم دو رکعت ہی
اداکر لیوے اس سے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
یا
ابن آدم رکع لی رکعتین فی اول النھار اکفک آخرہ۔
یعنی اے ابن آدم! تو میرے
لیے دو رکعت دن کے ابتداء حصہ میں پڑھ لے میں دن کے آخری
حصہ تک تیرے لیے کا فی ہو جاؤں گا ۔اسی لیے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے: اے
اللہ! میرے دن آغازکونیک عمل کا حصّہ بنا کہ مجھے نیک عمل کی
توفیق ہو جائے تاکہ سارادن اللہ کی نصرت اور مددمیرے ساتھ رہے
حضرت مولا نا تقی عثما نی مد ظلہ العالی لکھتے ہیں کہ
ہمارے حضرت ڈاکٹرعبدالحی صاحب رحمة الله عليه فرماتے تھے کہ اللہ تعالی
نے صبح کا وقت ایسا بنایا ہے کہ اسی کائنات کی ہرچیزمیں
نئی زندگیاں آتی ہیں کہ سوتے ہوے لوگ بیدار ہوتے ہیں
کلیاں چٹکتی ہیں غنچے کھلتے ہیں پھول کھلتے ہیں
پرندے جاگتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہ وقت نئی
زندگی عطاکرنے والاہے اگراس نئے وقت کواللہ کے ذکرمیں گزاروگے تو
تمہارے قلب کے اندر رجوع الی اللہ کا نور پیدا ہوگا اتنا نور اتنا نور
کہ دوسرے اوقات میں ذکر کرنے سے حاصل نہ ہوگا۔ پھر حضرت والا (یعنی
مولانا تقی عثمانی) تحریرفرماتے ہیں کہ ایک زمانہ
وہ تھا کہ فجر کے وقت مسلمانوں کی کسی بستی سے گز ر جا ؤ تو ہر
گھر میں تلاوت قرآن کریم کی آوازآیا کرتی تھی
چاہے وہ عالم کا گھر ہو یاجاہل کا اسی سے معاشرے میں نورانیت
محسوس ہوتی تھی لیکن اب افسوس یہ ہے کہ اگرمسلمانوں کی
بستی سے گزرو توتلاوت کے بجائے فلمی گا نے کی آوازیںآ تی
ہیں، فا العیاذ باللہ۔ صبح کے وقت ہمارا حال ایک شاعر مجیدی
لاہوری مرحوم اپنے اشعار میں اپنے زمانے کی تصویر کشی
کرتے ہوئے کہتا ہے۔پہلے لوگ سویرے اٹھتے تھے، اور اٹھ کر قرآن
پڑھاکرتے تھے، نو بجے اٹھتے ہیں اور اٹھ کر ڈان پڑھتے ہیں جب دن کا
پہلا حصہ ہی ایسے بڑے کا م میں لگا دیا اور اللہ کے ذکر
سے غا فل ہوگئے تو پھر سارے دن کے کاموں میں نور کہا ں سے آئے گا ؟ بہر حا ل
اللہ نے صبح کے وقت میں بڑ ی بر کت رکھی ہے اور بڑا نور رکھا ہے
اگر انسان اس وقت کو تلاوت میں اللہ کے ذکر میں لگائے توانشاء اللہ اس
کا نو ر حاصل ہوگا ۔
صبح کے وقت میں برکت ہے:
ایک حدیث میں ہے
نبی کر یم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا
”بارک اللّٰہ لامتی فی بکورھم“ یا پھر یہ الفاظ ہے ”اللّٰھم
بارک لامتی فی بکورھم“ یعنی اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے
صبح سویرے میں برکت رکھی ہے یااے اللہ میرے امت کے
صبح کے وقت میں برکتیں نازل فرما۔
اور یہ بات آپ صلى الله عليه
وسلم نے صرف ذکر یا عبادت کی حد تک نہیں فرما ئی بلکہ ایک
شخص جو تاجر تھے ان سے آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا
کہ تم صبح سویرے اپنی تجارت کے کام کو انجام دیا کرو وہ صحابی
فرماتے ہیں حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کے یہ ارشاد سننے کے بعد میں
نے اس پر عمل کیا اور صبح ہی اول وقت میں تجارت کا عمل شروع کیا
کر تا تھا تو اللہ نے مجھے اس کی برکت سے اتنا مال عطافرمایا کہ لوگ
مجھ پر رشک کرنے لگے ۔
کا رو بار مندہ کیوں نہ ہو ؟
اب ہمارے یہاں ساری
قدریں الٹ ہوگئیں دن کے گیارہ یا نو بجے تک بازار بند
رہتا ہے گیارہ بجے کے بعد کارو بار شروع ہوتا ہے گیا رہ بجے کا مطلب
دوپہر گو یا دن کا ایک پہرتوبیکار نیند اور غفلت کی
حلت میں نہ نماز نہ صلوة نہ ذکر نہ تلاوت بلکہ گناہوں میں گزرگیا،
کہیں فلم دیکھنے میں، کہیں سریل دیکھنے میں،
کہیں گانے سننے میں، کہیں گپ شپ میں، پھر ہر شخص کے زبان
پر یہ رونا کہ کاروبار مندہ ہے کہا ں سے کاروبار چلے مندہ ختم ہو جبکہ تونے
ہی تلاوت اور ذکراللہ اور نماز میں مندہ کررکھاہے جس ذات کی
قدرت میں کاروبار ہے جیسا کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم
نے ارشاد فرمایا ان
اللّٰہ ہوالباسط القابص المسعر الرزاق اللہ رب العزت وہ ہی رزق میں فراخی اورپھیلاوٴ
کرنے والا، وہ ہی کاروبار میں مندہ ڈالنے والا، وہی قسمتوں کو
متعین کرنے والے اور رزق دینے والاہے، اب جب ہم نے ہی اپنے
تعلقات کو اس کے ساتھ کمزور کردیا جبکہ کارو بارمیں ترقی دینا
اسی کے قبضہ قدرت میں ہے توپھر وہ بھی ہم پر کیوں برکتوں
کو نازل کریگا لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے تعلق قائم کیا
جائے اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کواپنایا جائے اورصبح سویرے
نماز ذکر تلاوت وغیرہ سے فارغ ہوکر اپنی تجارت کاآغاز کیا جائے
پھر دیکھو کیسی برکتیں نازل ہوتی ہیں، اللہ
ہم سب کو من یطع اللّٰہ والے گروہ میں داخل فرمادیوے اور
دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران فر مائے۔ آمین یا
رب العالمین ۔
نوٹ: امام بیہقی نے ایک روایت
نقل کی ہے جس میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فجرکے
بعد سونے سے منع فرمایا وہ روایت یہ ہے:ایک مرتبہ نبی
کریم صلى الله عليه وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا کوفجر کے بعد متصلا سو تے ہوئے دیکھا تو ان کو جگایا اور فجرکے
بعدسونے سے منع فرمایا۔
***
__________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره : 6 ، جلد : 92 جمادی
الثانی 1429ھ مطابق جون 2008ء